عربی زبان سے ماخوذ اسم 'تصوریت' کے ساتھ فارسی مصدر 'پسندیدن' سے مشتق امر 'پسند' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے ١٩٦٣ء میں "تجزیہ نفس" میں مستعمل ملتا ہے۔
"جو لوگ اس امر کی حمایت کرتے ہیں کہ ذہن ہی حقیقت ہے اور مادہ مذموم خواب، تصوریت پسند یا تصوریہ کہلاتے ہیں۔"
( ١٩٦٣ء، تجزیہ نفس، ٦ )
٢ - مثالی یا کامل شے کا طالب، تخیل پرست۔
"ایک آئیڈیلسٹ یا تصوریت پسند کے لیے سوچ کا یہ زاویہ علم بہاؤ سے ہٹا ہوا نظر آیا۔ کیا اس کرہ ارض کو جنت اراضی بنانے کی خواہش محض خیالی اور بے حقیقت ہے۔"
( ١٩٧٤ء، تاریخ اور کائنات، ٨١٤ )