لگا ہوا

( لَگا ہُوا )
{ لَگا + ہُوا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ اردو مصادر 'لگتا' اور 'ہونا' سے مشتق صیغہ ماضی مطلق جو کہ بطور صفت بھی مستعمل ہیں، کہ بالترتیب ملنے سے مرکب بنا اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٨٣٨ء کو "گلزار نسیم" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
واحد غیر ندائی   : لَگے ہُوئے [لَگے + ہُو + اے]
جمع   : لَگے ہُوئے [لَگے + ہُو + اے]
جمع غیر ندائی   : لَگے ہُوؤں [لَگے + ہُو + اوں (و مجہول)]
١ - مِلا ہوا، پاس، قریب، متصل۔
"ڈوبتے ہوئے سورج کی ہلکی ہلکی روشنی اس لیے اب بھی موجود تھی کہ ادھر ہی پاس لگا ہوا سال بنی کا کنارہ تھا۔"      ( ١٩٤٤ء، رفیق حسین، گوری ہو گوری، ١٢٦ )
٢ - مصروف، مشغول۔
"وہ کام میں لگا ہوا ہے۔"      ( ١٩٣١ء، نوراللغات، ٢٠٦:٤ )
٣ - گھات میں بیٹھا ہوا۔
"اس ناشدنی خواجہ سرا کے ایک لگے ہوئے آدمی نے جھپٹ کر جمدہر مارا نواب بے ہوش گرے۔"      ( ١٩٣٣ء، مغل اور اردو، ٦٢ )
٤ - ہلا ہوا، سدھا ہوا، مانوس۔ (فرہنگ آصفیہ، علمی اردو لغت)
٥ - منتظر، امیدوار۔
 آواز پہ وہ لگی ہوئی تھی آپ آن کے ٹھاٹ دیکھتی تھی      ( ١٨٣٨ء، گلزار نسیم، ٤ )
٦ - آشنا، یار۔ (علمی اردو لغت، نوراللغات)۔
٧ - عادی، خوگر، لگو، جیسے: لگا ہوا شیر یا کتا۔ (جامع اللغات، نوراللغات)
٨ - داغی؛ جیسے: لگا ہوا پھل۔ (نوراللغات)
٩ - وابستہ۔
 دامن سے لوگ اس کے اکثر لگے ہوئے ہیں کوچے میں سینکڑوں کے بستر لگے ہوئے ہیں      ( ١٨٧٢ء، مرآۃ الغیب، ١٧٩ )