متدارک

( مُتَدارِک )
{ مُتَدا + رِک }
( عربی )

تفصیلات


درک  تَدارُک  مُتَدارِک

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو زبان میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٠١ء کو "گلشن عشق" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - ملنے والا؛ (عروض) انیس بحروں میں سے اٹھارویں بحر کا نام جس کا وزن فاعلن آٹھ بار ہے چونکہ یہ بحر بعد کو ایجاد ہو کر پہلی بحروں میں مل گئی اس لیے اس کا نام متدارک رکھا گیا۔
"بحرمتدارک یا بحر متقارب کے اوزان میں کسنا چاہتے ہیں تو زحافات کے جھمیلوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔"      ( ١٩٨٤ء، اردو اور ہندی کے جدید مشترک اوزان، ٢١ )
٢ - بہ اعتبار حروفِ ساکن و متحرک، قافیے کی پانچ قسموں میں سے ایک قسم۔
"متدارک وہ قافیہ ہے کہ دو ساکن کے درمیان دو متحرک ہوں۔"      ( ١٩٣٩ء، میزانِ سخن، ١٣٩ )