متحجر

( مُتَحَجِّر )
{ مُتَحَج + جِر }
( عربی )

تفصیلات


حجر  حَجَر  مُتَحَجِّر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو زبان میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٧٤ء کو "انیس کے ہاں، مراثی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - پتھر کی سخت، پتھریلا۔
"سچے شاعروں نے عام طور پر. جامد اور متحجر اصولوں کے خلاف احتجاج کیا ہے۔"      ( ١٩٩٤ء، نگار، کراچی، جون، ٢٧ )
٢ - جو پتھر بن گیا ہو، پتھرایا ہوا، (زمین کے طبقات میں پائے جانے والے ماضی کے قدیم دور کے پودے یا جانوروں کے ڈھانچے یا بقیہ آثار) جو پتھر کی شکل میں تبدیل ہو گئے ہوں۔
"زندہ اور متحجر نمونوں کے بغور مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اعلٰی پودوں کے ارتقاء کا عام ممر قریب قریب اسی نہج پر ہوتا ہے۔"      ( ١٩٤٣ء، مبادی نباتیات، ٦٧٥:٢ )
٣ - فنا ہو جانا، خاک ہو جانا۔
"سنسکرت آہستہ آہستہ متحجر ہوگئی۔"      ( ١٩٨٥ء، اردو ادب کی تحریکیں، ١٨٩ )