لشکر والا

( لَشْکَر والا )
{ لَش + کَر + وا + لا }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'لشکر' کے بعد فارسی زبان سے ماخوذ 'والا' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو زبان میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٣٥ء کو "دیوان رنگین وانشا" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
جنسِ مخالف   : لَشْکر والی [لَش + کَر + وا + لی]
واحد غیر ندائی   : لَشْکَر والے [لَش + کَر + وا + لے]
جمع   : لَشْکَر والے [لَش + کَر + وا + لے]
١ - بادشاہ، حاکم، نواب، صاحب احتشام، صاحب لشکر، حاکم۔
 نکلا عید کا چاند جو گھر سے لشکر والا نکلا آج کیوں نہ پھروں میں اہلی گہلی اوپر والا نکلا آج      ( ١٨٣٥ء، رنگین (دیوانِ رنگین و انشا)، ٦٦ )
٢ - فوجی، سپاہی۔
"اپنے عملوں اور لشکر والوں کی زبان سے کنور صاحب کی سرکشی اور غرور اور ہیکڑی کی داستانیں روز سنا کرتا تھا۔"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، پریم بتیسی، ٨:١ )