مسوسنا

( مَسوسْنا )
{ مَسوس (و مجہول) + نا }
( عربی )

تفصیلات


سوس  مَسوس  مَسوسْنا

عربی زبان سے ماخوذ اسم 'مسوس' کے ساتھ 'نا' بطور لاحقہ مصدر لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور 'فعل' مستعمل ہے۔ ١٧١٨ء کو "دیوان آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

فعل متعدی
١ - دبانا، بھینچنا؛ بل دینا، مروڑنا۔
"اسے محسوس ہوا کہ جیسے کوئی اس کے دل کو مسوس رہا ہو۔"      ( ١٩٩٤ء، قومی زبان، کراچی، جنوری، ٦٩ )
٢ - جذبے یا ولولے کو ضبط کرنا، روکنا، تھامنا، شکوہ شکایت نہ کرنا؛ دل ہی دل میں رنج کرنا، کڑھنا، غم کرنا؛ مجبوراً برداشت کرنا۔
"حزنیہ کیفیت دل مسوسنے کے ایک سچے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، اقبال ایک شاعر، ٩٢ )
٣ - (صدمے کے باعث) دل پر ہاتھ رکھنا، افسوس کرنا، پچھتانا۔ (فرہنگ آصفیہ)