مشہد

( مَشَہَد )
{ مَش + ہَد }
( عربی )

تفصیلات


شہد  شاہِد  مَشَہَد

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق 'اسم' ہے۔ عربی سے اردو میں من و عن داخل ہوا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٧١٨ء کو "دیوانِ آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع غیر ندائی   : مَشْہَدوں [مَش + ہَدوں (و مجہول)]
١ - حاضر ہونے کی جگہ؛ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہوں خاص طور پر دینی رسومات ادا کرنے کے لیے، وہ مقام جہاں لوگوں کا اجتماع ہو۔
"ان کا دل مسلسل تیس برس تک گوناگوں توقعات کا مولا و مشہد بنا رہا۔"      ( ١٩٦٥ء، کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ، ٢٦٩ )
٢ - شہادت گاہ، شہید ہونے کی جگہ نیز شہیدوں کا قبرستان، میدان کارزار جہاں لوگ شہید ہوتے ہیں۔
 عرصہ مرے مشہد کا اب دشت غزالاں ہے تھا زیست میں ہنگامہ کل یار آنکھوں سے      ( ١٩٩٦ء، کلیات ممنون، ٣٥ )
٣ - بزرگوں کی قبریں اور یادگاریں، زیارت گاہ، مزار، درگاہ، آستانہ، مقبرہ۔
"بزرگوں کی قبروں اور یادگاروں پر عمارات تعمیر کرنا اور انہیں ایک ایسی زیارت گاہ یعنی مشہد بنا لینا جس کا بہ اعتقاد نفع و ضرر قصد کیا جائے۔"      ( ١٩٤٨ء، تبرکات آزاد، ٣٦٨ )
٤ - ایران کے ایک مشہور اور مقدس شہر کا نام جہاں روضۂ امام رضا علیہ السلام ہے اس کو مشہد مقدس بھی کہتے ہیں۔
ہر زائر جو مشہد میں آتا ہے حق رکھتا ہے کہ وہ تین روز تک مہمان رہ سکے۔"      ( ١٩٨٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ١٦٧:٢١ )