مسک

( مَسَک )
{ مَسَک }
( سنسکرت )

تفصیلات


مَسَکْنا  مَسَک

سنسکرت زبان سے ماخوذ فعل 'مَسَکنا' کا حاصل مصدر ہے اردو میں بطور 'اسم' مستعمل ہے۔ ١٨٣٨ء کو "چمنستان سخن" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - تنگ ہونے، دباؤ یا زور پڑنے سے کپڑے کا خفیف سا پھٹ جانا، چر جانا۔
 وہ کلائی میں شاخِ گل سی لچک ابھرے سینے کی بھی وہ قہر مسک      ( ١٨٥٧ء، بحر الفت، ١٥ )
٢ - بدن کو بار بار لچکانے کا عمل (خصوصاً رقص میں)۔
"یہ لچک، یہ چمک، یہ جھمک، یہ کمک اور یہ مسک کسی عورت کو مل جاتی تو ہم سچ کہتے ہیں کہ وہ قیامت بن کر دنیا کو ہلا ڈالتی۔"      ( ١٩٣٨ء، بحر تبسم، ٢٠٥ )
٣ - بھینچے جانے کی حالت یا دھچکا، دباؤ۔ (علمی اردو لغت نور اللغات)
٤ - [ موسیقی ]  ٹھاٹھ کے دوران تال کی لے کے ساتھ ساتھ سانس کو آہستہ آہستہ اندر باہر نکالنے سے پیدا ہونے والا اتار چڑھاؤ یا زیر و بم۔
"مسک اگر صحیح طریقے سے ادا کی جائے تو گہرے تاثرات نمایاں کرتی ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، جریدہ، پشاور، ٣٢٤:٣ )