بال بال

( بال بال )
{ بال + بال }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے ماخوذ اسم 'بال' کی تکرار سے اردو میں 'بال بال' مرکب بنتا ہے اور بطور اسم اور گاہے بطور متعلق فعل مستعمل ہے۔ ١٧٣٢ء میں "پنچھی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - ایک ایک رونگٹا، ہر ایک بال، سرتاپا۔
 قلب عارف کی طرح روشن ہو جس کا بال بال جس کے جذبے ہوں قیامت کے سریع الاشتعال      ( ١٩٣٣ء، فکر و نشاط، ١٠٠ )
متعلق فعل
١ - بالکل، کلیۃ۔
 پکے بالوں میں بھی خامی کا اثر ہے بال بال آدمی خاطی ہے پروردہ ہے کچے شیر کا      ( ١٨٣٦ء، ریاض البحر، ١٠ )