بال ہما

( بالِ ہُما )
{ با + لے + ہُما }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'بال' کے آخر پر کسرۂ اضافت لگا کر فارسی زبان میں مستعمل اسم 'ہما' لگنے سے 'بال ہما' مرکب اضافی بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٣٩ء میں "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - (مشہور چڑیا) ہما کا سایہ جو روایۃً اقبال مندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
 جن سروں پر تھا کبھی بال ہما آج غیروں کے مگس راں ہو گئے      ( ١٩٣٧ء، نغمۂ فردوس، ٤٠:٢ )