بال و پر

( بال و پَر )
{ با + لو (و مجہول) + پَر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'بال' حرف عطف 'و' اور اسم 'پر' سے مل کر مرکب عطفی بنا ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٧٦ء میں "خواب و خیال" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - جمع )
١ - (لفظاً) پرندے کے بازو اور پر، پر پرزے، (مراداً) پرواز کی طاقت یا ہمت۔
 دام اس میں بے خطا اس میں قفس ہے بے قصور شوق پابندی نہاں خود میرے بال و پر میں ہے      ( ١٩١٢ء، کلیات حسرت موہانی، ٤٢ )
٢ - وسیلہ، ذریعہ۔ (فرہنگ آصفیہ، 355:1؛ نوراللغات، 547:1)
٣ - نوک پلک، لوازم حسن۔
"نظم الفاظ میں اگر بال و پر کی کمی رہ جاتی ہے تو وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارے شعر میں کونسی بات کی کسر رہ گئی۔"      ( ١٨٩٣ء، مقدمۂ شعر و شاعری، ٥١ )