رخصتی

( رُخْصَتی )
{ رُخ + صَتی }
( عربی )

تفصیلات


رُخْصَت  رُخْصَتی

عربی زبان سے ماخوذ اسم 'رخصت' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ نسبت و صفت لگانے سے 'رخصتی' بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٥٨ء کو "مقالات سرسید" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - جو چھٹی پر ہو، رخصت یافتہ۔
"جس دن سے امانت خان سوار رخصتی کی زبانی تمہارے علیل ہونے کا حال معلوم ہوا ہے، رنج کی حدو نہایت نہیں۔"      ( ١٨٦٩ء، اشائے خرد افروز، ٨ )
٢ - رخصت کے وقت کا، آخری۔
 ساقی کوئی رخصتی بھی ساغر ہے آمد بادشاہ خاور      ( ١٨٨١ء، مثنوی نیرنگ خیال، ١٨٣ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - دلہن کی رخصتی، وداع۔
"طبقات میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی مذکور ہے کہ . رخصتی نہیں ہوئی تھی۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٢٥٢:٣ )
٢ - وہ روپیہ جو وداع ہوتے وقت دیا جائے، سلامی۔ (نوراللغات، فرہنگ آصفیہ)۔
٣ - ایسی نظم یا گیت جو شادی کے موقع پر ماں باپ کے گھر سے لڑکی کی رخصتی کے وقت گایا جائے، اسے بابل بھی کہتے ہیں۔
"رخصتی: وہ نظم جو لڑکی والوں کی طرف سے شادی کے موقع پر اظہار محبت و تلقین کے طور پر لکھی جائے۔"      ( ١٩٨٣ء، اصناف سخن اور شعری ہیئتیں، ١٩٤ )
٤ - روانگی
"عین رخصتی کے وقت، اس نامہ سیاہ نے سبکی آنکھ بچا، مصافہ کے بہانے سے ایک گزارش کان میں کی۔"      ( ١٩٤٥ء، حکیم الامت، ٢٤ )
  • وِداعِگی