رخنہ اندازی

( رَخْنَہ اَنْدازی )
{ رَخ + نَہ + اَن + دا + زی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسما 'رخنہ' اور 'انداز' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب 'رخنہ اندازی' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٧٢ء کو "مظہر عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - خلل ڈالنے یا بھانجی مارنے کا عمل۔
"گوشہ گیری، قناعت، گدائی اور مذہب کی رخنہ اندازی کے خلاف یہ تمام درس . مذہبی تجرد کی طرف لے جاتا ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، نیم رخ، ٣٩ )
٢ - سوراخ ڈالنے یا چھید کرنے کا عمل۔
 اس قدر کی رخنہ اندازی خدنگ آہ نے رفتہ رفتہ یار کی دیوار میں در ہو گیا      ( ١٨٧٢ء، مظہر عشق، ٤٩ )
  • خَلَل اَنْدازی
  • مَزاحْمَت