ردیف وار

( رَدِیف وار )
{ رَدِیف + وار }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'ردیف' کے ساتھ 'وار' بطور لاحقۂ صفت لگانے سے مرکب 'ردیف وار' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٩٠ء کو "بوستان خیال" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - حروف تہجی کی ترتیب سے، قافیے یا ردیف کے آخری حرف کے لحاظ سے۔
"ردیف وار غزلوں پر مولانا مرحوم اور میں نے پتہ لگا لگا کر سنہ تصنیف بھی لکھ دیا تھا۔"      ( ١٩٥٣ء، دیوان صفی (پیش لفظ)، ٢ )
٢ - سوار کے پیچھے بیٹھنے والے شخص کی طرح۔
"ردیف وار اس باب کے پیچھے پڑ گئے چاہا جس طرح سے بنے بگڑے خواہ بنے دستبرد کریں۔"      ( ١٨٩٠ء، بوستان خیال، ٤٤١:٦ )