سرہنگ

( سَرْہَنْگ )
{ سَر + ہَنْگ (ن غنہ) }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٦٤٩ء سے "خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : سَرْہَنْگوں [سَر + ہَن (ن غنہ) + گوں (و مجہول)]
١ - سردار فوج، کپتان، ہراول، سپہ سالار۔
 سرہنگوں میں تھے اس کے امیر اور تاجدار یوں دیتا ملک جیسے کوئی صدقہ دے اتار    ( ١٩٨٤ء، قہر عشق، ٤٤٣ )
٢ - ہندوستان میں مغل شاہی عہد کا ایک فوجی عہدہ دار جو صاحب کا مالک ہوتا تھا اور صاحب حاجب "سپہ سالار" کے ماتحت تھا۔ (ہندوستان کے عہد وسطٰی کا فوجی نظام، 11)
٣ - سپاہی
"کمربستہ سرہنگ داخل ہوتے ہیں۔"    ( ١٩٧٤ء، برگِ خزاں، ١٨٦ )
٤ - تھانیدار
"ہمارے ساتھی سوداگر کو ساتھ لے کر سرہنگ تھانیدار کے یہاں شکایت کو چلے۔"    ( ١٩١٢ء، روزنامچہ سیاحت، ١٢٨:١ )
٥ - پہلوان، بہادر، جیوٹ، سرکش، باغی۔
"سب جھوٹ آپ ایسے ہی بڑے سرہنگ ہیں۔"    ( ١٨٩٠ء، سیر کہسار، ٣٠:٢ )
٦ - دل جلا، اکھڑ، شورہ، شخص۔
"کون ایسا سرہنگ تھا کہ ہماری علمداری میں یہ گستاخی کر گیا۔"    ( ١٩٠١ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ١٨٦:٢ )
٧ - [ کشتی بانی ]  کشتی کے ملازمین یا ملاحوں کی جمعدار۔
"سرہنگ : جہاز کو لنگر انداز کرنا اور اس کا لنگر اٹھا کر جہازوں کو ساحل سے روانہ کرنا، اسی شخص کے فرائض منصبی میں داخل ہے۔"      ( ١٩٣٨ء، آئین اکبری، ٤٢١:١ )