سر پھرا

( سَر پِھرا )
{ سَر + پِھرا }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سر' کے ساتھ سنسکرت زبان سے ماخوذ اردو مصدر 'پھرنا' سے مشتق صیغہ ماضی مطلق 'پھرا' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٩٤٧ء کو "شعراء انقلاب" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : سَر پِھری [سَر + پِھری]
واحد غیر ندائی   : سَر پِھرے [سَر + پِھرے]
جمع   : سَر پِھرے [سَر + پِھرے]
جمع غیر ندائی   : سَر پِھروں [سَر + پِھروں (و مجہول)]
١ - سرکش، نافرمان، ضدی، ہٹیلا۔
"یہ بڑا سر پھرا لونڈا ہے ہر وقت مارنے مرنے کو تیار۔"      ( ١٩٧٥ء، بسلامت روی، ٨٥ )
٢ - [ مجازا ]  ثابت قدم، دھن کا پکا، مستقل مزاج۔
"اپنی پڑھائی میں لگے رہو بیٹا تمہارا باپ تو سر پھرا ہے اس کو تو کسی بھی بات کی دھن لگ جاتی ہے۔"      ( ١٩٨١ء، چلتا مسافر، ٥٦ )