سر بریدہ

( سَر بُرِیدَہ )
{ سَر + بُری + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سر' کے ساتھ 'بریدن' مصدر سے مشتق حالیہ تمام 'بریدہ' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٨٧٠ء سے "دیوان اسیر" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - [ باضافت ]  جسم سے الگ کیا ہوا سر، وہ سر جو بدن سے کاٹ لیا گیا ہو۔
 وہ مست تھا کہ پس مرگ میرے قاتل نے سر بریدہ کو قندیل وار بست کیا      ( ١٨٧٠ء، دیوان اسیر، ١٤:٣ )
٢ - [ بلا اضافت ] سرکٹا ہوا (جسم) جس کا سر کٹ گیا ہو یا کاٹ دیا گیا ہو۔
 حسین! اے میرے سر بریدہ بدن دریدہ سدا تیرا نام برگزیدہ    ( ١٩٧٨ء، جاناں جاناں، ١٨٦ )
٣ - ایسی چیز جس کا سرا کٹا ہوا ہو، مقطوع۔
"راسی خلیہ ایک چار جانبی سر بریدہ ہدم (Truneated Pyramid) کی شکل کا ہوتا ہے۔"    ( ١٩٦٨ء، الجی، ١٦٤ )