رہ گیر

( رَہ گِیر )
{ رَہ + گِیر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'رہ' کے ساتھ 'گرفتن' مصدر سے 'گیر' صیغہ امر بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب 'رہ گیر' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٧٤ء کو "مراثی انیس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : رَہ گِیروں [رَہ + گی + روں (و مجہول)]
١ - وہ شخص جو کسی راستے سے گزرے، راستہ چلنے والا، راستہ چلتا (شخص)، مسافر۔
 لا سے الا اللہ تک گر لو نہ دے اس کا جمال منزلوں کا فیصلہ رہ گیر کر سکتا نہیں      ( ١٩٧٩ء، دریا آخر دریا ہے، ٢٦ )