خریدی

( خَرِیدی )
{ خَری + دی }
( فارسی )

تفصیلات


خَریدَن  خَرِید  خَرِیدی

فارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت'خرید' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقہ کیفیت صفت ملانے سے 'خریدی' بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت مستعمل ہے۔ ١٦٣٥ء میں "مینا ستونتی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - خریدا ہوا، مول لیا ہوا۔
 یو میں ہوں تمھارا خریدی غلام غلط کیوں بو بندہ تھے ہووے گا کام      ( ١٧٩٧ء، یوسف زلیخا، فگار، ٢١٥ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - کاروبار، معاملات۔
"یہ اربری لنڈن سے بیچ سرکار دولت مدار حضرت نواب صاحب قبلہ نواب شمس الامرا بہادر . کے خریدی میں آ گئی۔"      ( ١٨٤٥ء، رسالہ نظام شمسی و بیان اربری، ٢ )
٢ - مانگ، طلب۔
"آئندہ بڑی بڑی لائینوں کی خریدی مکمل ہو جائے گی تو اس ذریعہ سے کثیر آمدنی حاصل ہونے کا قرینہ ہے۔"      ( ١٩٣٧ء، اصول و طریق محصول، ١٥٩ )
٣ - [ مجازا ]  توشہ آخرت، موت کے بد زندگی کا سامان۔
 میں تجھے دنیا میں بس مہلت دیا تو خریدی آخرت کی کیا کیا      ( ١٨٨٥ء، باغ ارم، ١٢٧ )