خزانۂ عامرہ

( خَزانَۂِ عامِرَہ )
{ خَزا + نَہ + اے + عا + مِرَہ }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'خزانہ' کے ساتھ کسرہ اضافت لگانے کے لیے ہمزہ زائد لگانے کے بعد عربی زبان سے ہی اسم صفت 'عامرہ' ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٠٢ء میں "باغ و بہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - شاہی یا سرکاری خزانہ جس میں گورنمنٹ کو دیا جانے والا مالیہ جمع ہوتا ہے اور اخراجات مختلف شعبوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔
"اور کمپنی پر لازم قرار دیا گیا کہ وہ شش ماہی گزرنے پر اپنے حسابات خزانہ عامرہ کے روبرو تنضیح کے لیے پیش کرے۔"      ( ١٩٤٤ء، تاریخ دستورینہ، ٣٣ )
٢ - محفوظ خزانہ۔
"سائیں کی افتاد طبع قطعاً درویشانہ تھی وہ کبھی سردار صاحب کے خزانہ عامرہ کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔"      ( ١٩٧٧ء، سائیں احمد علی پیشاوری، ٢٢ )
٣ - دستاویز و مخطوطات و ادب عالیہ کا ذخیرہ شاہی یا سرکاری۔
"سلطان جہان بیگم تاج الہند فرماں فرماتے بھوپال . آگے بڑھیں اور سوانح نگار نبوت کو دوسرے آستانوں سے بے نیاز کر کے اس سرمایہ سعادت کو اپنے خزانہ عامرہ میں شامل کر لیا۔"      ( ١٩١١ء، سیرۃ النبی، دیباچہ طبع اول، ٢:١ )