سرکوب

( سَرْکوب )
{ سَر + کوب (و مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سر' کے ساتھ 'کوبیدن' مصدر سے مشتق صیغہ امر 'کوب' بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٧٥٩ء سے "راگ مالا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - پشتہ (جو قلعے کے مقابل اس سے اونچا بناتے ہیں)، دمدمہ۔
"ایک درہ میں. ان تھیلوں کو ڈال کر بڑا سرکوب بنایا اور اہل قلعہ کو ستایا۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ٥٠:٢ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - سر کچلنے والا، تادیب کرنے والا، سزا دینے والا، شکست دینے والا۔
 شرک پھیلا ہو جہاں لازم ہے اک سرکوب بھی مدتوں سے ہے یہی ازجملہ معمولاتِ ہند      ( ١٩٢١ء، اکبر، کلیات، ١٧:٤ )
٢ - نگران، سردار۔
 ہے جو سرکوب اک بڑی دیوار واں سے جھانکو تو ہے اندھیرا غار      ( ١٨١٠ء، میر کلیات، ١٠١٤ )
٣ - [ معماری ]  چمنی کی کلاہ نما چھت۔
"اوپر ایک بہت بلند آویزہ دار سرکوب (Hod) بنا دیا جاتا تھا۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٧٨٠:٣ )