سرگوشی

( سَرْگوشی )
{ سَر + گو (و مجہول) + شی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سر' کے بعد فارسی ہی سے ماخوذ اسم 'گوش' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب 'سرگوشی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٧٩٤ء سے "دیوار بیدار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : سَرْگوشِیاں [سَر + گو (و مجہول) + شِیاں]
جمع غیر ندائی   : سَرْگوشِیوں [سَر + گو (و مجہول) + شِیوں (و مجہول)]
١ - سر کو کان کے پاس لے جا کر کچھ کہنا، چپکے چپکے باتیں کرنا، کان میں آہستہ آہستہ باتیں کہنا، کانا پھوسی، کانا باتی، کھسر پھسر۔
"پہلے تو حیران رہ گئے، پھر آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔"      ( ١٩٨٤ء، اوکھے لوگ، ٥١ )
٢ - پیٹھ پیچھے برا کہنا، بدگوئی، غیب، چغلی۔
"ان کے بارے میں خاص سرگوشیاں ہوتی ہیں۔"      ( ١٩٢٤ء، خونی راز، ١٢ )