سرمایہ کار

( سَرْمایَہ کار )
{ سَر + ما + یَہ + کار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سرمایہ' کے ساتھ فارسی ہی سے ماخوذ اسم 'کار' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٩٦٠ء سے "دوسرا پنج سالہ منصوبہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : سَرْمایَہ کاران [سَر + ما +یَہ + کا + ران]
جمع غیر ندائی   : سَرْمایَہ کاروں [سَر + ما + یَہ + کا + روں (و مجہول)]
١ - [ بینکاری ]  کاروبار میں پونجی لگا کر دولت کمانے والا، سرمایہ لگانے والی اسامی۔
"اگر سود کی شرح کھلی مارکیٹ کی شرح سے کم ہو تو سرمایہ کاروں کو اس بات کی ترغیب ہوگی کہ نسبتاً کم محنت اور زیادہ سرمایہ استعمال کریں۔"      ( ١٩٦٠ء، دوسرا پنج سالہ منصوبہ، ١٤٨ )