سرمہ در گلو

( سُرْمَہ دَرْ گُلُو )
{ سُر + مَہ + دَر + گُلُو }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سرمہ' کے بعد فارسی اسم 'در' کے ساتھ فارسی ہی سے اسم 'گلو' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٧٩٢ء سے "دیوان محب" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - [ کنایۃ ]  خاموش، چپ (سرمہ کھا جانے سے آواز بیٹھ جاتی)؛ بولنے سے معذور۔
"چنانچہ سرمایہ درگلو نواب بیگم ظفر کے اشعار گنگناتی رہیں۔"      ( ١٩٨٧ء، گردش رنگ چمن، ١٥١ )