تفرید

( تَفْرِید )
{ تَف + رِید }
( عربی )

تفصیلات


فرد  فَرْد  تَفْرِید

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٠٧ء میں "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - یکتائی، تجرید، توحید، عزلت نشینی، اکیلا رہ جانا۔
"آپ تفرید و توحید کو بہت پسند کرتے ہیں۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٤٧٦:٢ )
٢ - الگ الگ کرنا، چھٹائی، چھانٹنا۔
"حواس ادراک کرتے ہیں عقل انہی میں تحلیل یا ترکیب تعمیم یا تفرید کا عمل کرتی ہے۔"      ( ١٩٠٧ء شعرالعجم، ١٦٤:٥ )
٣ - [ حیاتیات ]  ارتقاء کے مدارج میں وہ درجہ جس میں مختلف اعضاء کا الگ الگ ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے۔
"چوتھا جزو عضویاتی ارتقاء کا تعرید ہے۔"      ( ١٩٢٩ء، جدید سائنس، ٣٢٤ )
٤ - [ تصوف ]  غیر حق کو اپنی نظر سے دور کرنا اور حق کو اپنے میں دیکھنا (مصباح التعرف،78)۔