تفسیدہ

( تَفْسِیدَہ )
{ تَف + سی + دَہ }
( عربی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت ہے۔ اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٨٣٦ء میں "ریاض البحر" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - گرم، تپتا ہوا۔
 کف آلودہ دریا و تفسیدہ صحرا وفا کی امید جس سے وہ غدار نکلا      ( ١٩٦٥ء، دشت شام، ١٦٨ )
٢ - جھلسا ہوا۔
 جب ہو گئی خزاں سے مبدل بہار بند تفسیدہ داغ غم سے ہوئے لالہ زار بند      ( ١٩٣٧ء، مہرشی درشن، ٥٤ )