خانہ ساز

( خانَہ ساز )
{ خا + نَہ + ساز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'خانہ' کے ساتھ فارسی مصدر 'ساختن' سے مشتق صیغہ امر 'ساز' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٨٨٩ء میں "مجموعہ نظم بے نظیر" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : خانَہ سازوں [خا + نَہ + سا + زوں (و مجہول)]
١ - گھر کی بنی ہوئی۔
"خانَہ ساز دوا اور بازاری دوا میں جو فرق ہوتا ہے وہ عربک ہائی اسکول کے پرانے نئے استادوں میں تھا۔"      ( ١٩٥٦ء، میرے زمانے کی دلی، ١٢٤:١ )
٢ - مقامی، دیسی۔
 پیرمغاں فرنگ کی مے کانشاط ہے اثر اس میں وہ کیف غم نہیں، مجھ کو تو خانہ ساز دے      ( ١٩٠٨ء، بانگ درا، ١١٨ )
٣ - خود ساختہ، ایجاد بندہ۔
"لالہ صاحب بیچارے ہمیشہ اپنی خانہ ساز فارسی بولتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند، مضامین، ١٤٩ )
٤ - گھر بنانے والا، معمار نیز مراد محبوب۔
 دل اب اس کے ابرو سے چورنگ ہے بنے خانہ ساز اس کا یہ ڈھنگ ہے      ( ١٨٥٩ء، حزن اختر، ١٢٨ )
٥ - خاص طرز کا موجد؛ معمار۔
"غالب کو اردو نثر کے خانہ سازوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔"      ( ١٩٨٠ء، نذر حمید احمد خان، ٢٦٦ )
  • خانَہ ساخَتَہ
  • گَھریُلو