خاطر نشان

( خاطِر نِشان )
{ خا + طِر + نِشان }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'خاطر' کے ساتھ فارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت 'نشان' ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٩١ء میں "قلمی نسخہ قصہ فیروز شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - دل نشیں، ذہن نشیں، وہ بات جو دل میں بیٹھ جائے۔
 آج گو شکووں سے ہیں لبریز ہم اے خاک ہند ہیں مگر احسان اگلے تیرے سب خاطر نشاں      ( ١٨٨٨ء، کلیات نظم حالی، ٤١:٢ )
٢ - مطمئن۔
 ہاں لیس ہو رہیں جو کماندار ہیں جواں موڑیں نہ رخ وہ سہم کے خاطر رکھیں نشاں      ( ١٨٧٤ء، مراثی انیس، ١٠٣:٥ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - تسلی، اطمینان، دل جمعی۔
 خاطر نشاں اے صید فگن ہوگی کب تری تیروں کے مارے میرا کلیجہ تو چھن گیا      ( ١٨١٠ء، کلیات میر، ١٥٥ )