خاک سار

( خاک سار )
{ خاک + سار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'خاک' کے ساتھ فارسی زبان سے ہی 'سار' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت اور اسم مستعمل ہے۔ ١٧١٣ء میں "دیوان فائز دہلوی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - حقیر، ناچیز، عاجز (بندہ)؛ خاک کی مانند۔
 بعد تسبیح و حمد ربّ جلیل لب کشا یوں ہے خاکسار خلیل      ( ١٩٨٣ء، علامتوں کا زوال، ٢٧ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - متکلم کسر نفسی سے اپنے آپ کو کہتا ہ ے۔
"وہ ٹلی اس خاکسار ہی کو تو دی گئی تھی۔"      ( ١٩٨٣ء، ساتواں چراغ، ١٧٦ )