خاک ستر

( خاک سِتَر )
{ خاک + سِتَر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'خاک' کے ساتھ فارسی زبان سے ہی اسم 'ستر' ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے ١٧٣٩ء میں "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - جلی ہوئی چیز کی راکھ، بھبوت۔
"خاکستر برگ جب آلاس، خاکستر گلنار بطور سرمہ استعمال کریں۔"      ( ١٩٣٦ء، شرح اسباب، ترجمہ، ١١٥:٤ )
٢ - کڑھنے جلنے کا عمل۔
"وہ اپنی آگہی کی آگ میں جل جل کر خاکستر ہوتی رہتی ہیں۔"      ( ١٩٧٨ء، بے سمت مسافر، ٨ )
٣ - نشان، باقی ماندہ حصہ۔
"سلطنت کی خاکستر کے نیچے نہایت ہی خوفناک جنگ نشونما پا رہی ہے۔"      ( ١٩٠٧ء، نپولین بونا پارٹ، ٣٤٤:٥ )