تظلیل

( تَظْلِیل )
{ تَظ + لِیل }
( عربی )

تفصیلات


ظلل  ظَلالَت  تَظْلِیل

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے ١٩١٥ء میں "کلیات وفا رامپوری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - سایے میں آنا، سایہ ڈالنا، ڈھانپ لینا، سایہ افگنی۔
 سایہ گستر ہے تری ذات جو اک عالم پر اس زمانے میں ہے منحوس ہما کی تظلیل      ( ١٩١٥ء، کلیات وفا رامپوری، ١١ )
٢ - عکس، پرچھائیں، (مجازاً) خاکہ، تجویز، منصوبہ۔
"لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہ محض ایک ذہنی تظلیل ہے جو پائی نہیں جاتی بلکہ متصور کی جاتی ہے۔"      ( معارف فلسفہ جدید، ٣٣ )