تفتہ

( تَفْتَہ )
{ تَف + تَہ }
( فارسی )

تفصیلات


نافتن  تَفْتَہ

فارسی زبان میں مصدر 'تافتن' سے حالیہ تمام 'تافتہ' کی تخفیف ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٩٥ء میں "دیوان قائم" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - سوختہ، جلا ہوا، بریاں۔
 سبکھ پروانوں سے دل سوزی باہم اے شمع آگ میں اور کی یہ تفتہ جگر جلتے ہیں      ( ١٩٢٦ء، فغان آرزو، ١٢١ )
٢ - [ کنایۃ ]  عاشق، آزردہ، غمگین، مضطرب، بے چین۔
"امن و امامن مجھ مہجور و تفتہ جاں کے قدموں پر گر پڑیں۔"      ( ١٩١٤ء، محل خانہ، شاہی، ٣٣ )
٣ - تپتا ہوا گرم۔
"یہاں تک کہ ایک پارچہ آہن تفتہ نمودار ہوا وہ اتنا گرم تھا کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ ابھی آگ کی بھٹی سے نکلا ہے۔"      ( ١٨٩٧ء، تاریخ ہندوستان، ١٥٦:٦ )
٤ - گداختہ، پگھلایا ہوا۔
 جوں موم تفتہ کس کو سنبھالے ہے تو کہ یاں جتنا بدن ہے آتش غم سے گداز ہے      ( ١٧٩٥ء، دیوان قائم، ١٤٦ )