مشائی

( مَشّائی )
{ مَش + شا + ای }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ 'صفت' نیز 'اسم' ہے۔ اردو میں بطور صفت اور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٥٤ء کو "دیوان ذوق" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع   : مَشّائین [مَش + شا + این]
جمع غیر ندائی   : مَشّائیوں [مَش + شا + اِیوں (و مجہول)]
١ - اِدھر اُدھر چلنے پھرنے والا؛ وہ حکیم یا فلسفی جو حقائق اشیا کو دلیل سے دریافت کرنے کا قائل ہو، وہ حکیم جو دوسرے کے پاس جا کر تحصیل علم کرے، وہ حکیم جو دریافت حائق کے لیے ملک در ملک پھرے۔
 کمال کفش دوزی علم افلاطوں سے بہتر ہے یہ وہ نکتہ ہے سمجھے جس کو مشّائی نہ اشراقی      ( ١٨٩٢ء، حالی، د، ١١١ )
٢ - ارسطو یا اس کے پیروؤں کے فلسفے سے متعلق، ارسطوئی۔
"فلسفے نے جہاں تک مشائی اور رواقی تعلیمات کی جگہ لی اتنا ہی علم و حکمت کی ترقی میں بھی مزاحم ہوا۔"      ( ١٩٥٧ء، مقدمۂ تاریخ سائنس (ترجمہ)، ١، ٦٩٠:٢ )