زیر مشق

( زیرِ مَشْق )
{ زے + رے + مَشْق }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'زیر' کے آخر پر کسرۂ صفت لگا کر عربی اسم 'مشتق' لگانے سے مرکب توصیفی 'زیر مشق' بنا۔ اردو میں بطور اسم اور گاہے بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٥٧ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - ہاتھ پر چڑھا ہوا رواں۔ (فرہنگ آصفیہ، نوراللغات)
٢ - تابع، مطیع۔
"میں زیادہ نہ کم ول سے آخر تک کہوں گی، بڑھیا کی زیر مشق رہوں گی۔"      ( ١٩٠١ء، راقم، عقد ثریا، ١١٣ )
٣ - وہ چیز یا جگہ جسے بار بار استعمال کیا جائے، استعمال میں۔
"اس میں دریاؤں کی مسلسل قطع و برید سے کئی ایسے درے نمودار ہو گئے ہیں جو صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں اور تجارتی قافلوں کے زیر مشق رہے ہیں۔"      ( ١٩٧٨ء، پاکستان کا معاشی و تجارتی جغرافیہ، ١٠ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - وہ چمڑایا وصلی جسے لکھنے کی مشق کرتے وقت کاغذ کے نیچے رکھ لیتے ہیں۔
 سورج زر فشاں مشق کا تجھ ورق منور سپورن زیر مشق      ( ١٦٥٧ء، گلشن عشق، ٢٦ )