زیر سایہ

( زیرِ سایَہ )
{ زے + رے + سا + یَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'زیر' کے آخر پر کسرۂ صفت لگا کر فارسی اسم'سایہ' لگانے سے مرکب توصیفی بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٦٩ء کو "دیوان غالب" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - چھاؤں میں، سائے تلے، (مجازاً) پناہ میں، حمایت میں۔
"اس کی پرورش بڑے بڑے برگزیدہ پیغمبروں کے زیر سایہ ہوئی ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ٥٨١ )
٢ - ملحق، ملا ہوا، جوار میں، پڑوس میں، نزدیک۔
 مسجد کے زیر سایہ، خرابات چاہیے بھوں پاس آنکھ، قبلۂ حاجات چاہیے      ( ١٨٦٩ء، غالب، دیوان، ٢١٩ )
  • زیرِ حَمایت
  • زیرِ پَناہ
  • پَناہ گُزِین
  • ہَم سایَہ