زبان بندی

( زُبان بَنْدی )
{ زُبان + بَن + دی }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'زبان' کے ساتھ فارسی مصدر 'بستن' سے فعل امر 'بند' کے 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب 'زبان بندی' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٤١ء کو "روبکاری تاریخ نثر اردو" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - خاموش کرنا، بولنے کی ممانعت، بولنے پر پابندی۔
 یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں? یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری      ( ١٩٠٥ء، بانگ درا، ٦٢ )
٢ - خاموش، سکوت۔ (نوراللغات، فرہنگ آصفیہ)۔
٣ - جادو یا عملیات کے زور سے اپنے خلاف کچھ کہنے سے روکنا۔
 جسے سب عشق کہتے ہیں وہ ہے سحر زباں بندی لبوں تک آ نہیں سکتا ہے جو کچھ دل میں آتا ہے      ( ١٩٢٥ء، شوق قدوائی، ١٦٦ )
٤ - [ قانون ]  گواہی، اظہار، شہادت، بیان قلم بند کرنا۔
"عدالت مجاز ہے کہ اگر مناسب سمجھے زبان بندی لکھے جانے کے درمیان اوس سے جو . فریق کو استفسار کرنا منظور ہو استفسار کرے۔"١٩٠٨ء، مجموعہ ضابطۂ دیوانی، ٧٣
  • جَبْری خاموشی
  • written testimony
  • deposition
  • affidavit (in a court of law)