تار تار

( تار تار )
{ تار + تار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'تار' کی تکرار سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٧٩٤ء میں "جنگ نامہ دو جوڑا" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - ٹکڑے ٹکڑے، دھجی دھجی، پرزے پرزے، نہایت بوسیدہ، جھر جھرا۔
 شوق جنوں ہے آمد فصل بہار ہے دامان صبر دل شدگاں تار تار ہے      ( ١٩٠٠ء، کلیات حسرت موہانی، ٣٠٠ )
٢ - دھاگا دھاگا، لیر لیر، دھجی دھجی، ٹکڑا ٹکڑا۔
 ڈھانکا ہجوم صدنگہ پاس نے مجھے یوں تار تار ہو کے میسر کفن ہوا      ( ١٨٩٥ء، دیوان راسخ دہلوی )
٣ - [ عو ]  زیور کا کوئی حصّہ، ایک ایک چھلّا، زیور۔
"تار تار بک گیا اب کوئی زیور باقی نہیں ہے۔"      ( ١٩٢٦ء، نوراللغات )
  • ٹُکْڑا ٹُکْڑا