تازہ کار

( تازَہ کار )
{ تا + زَہ + کار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ صفت 'تازہ' کے ساتھ فارسی زبان سے ہی 'کار' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٨١٠ء میں "کلیات میر" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : تازَہ کاروں [تا + زَہ + کا + روں (و مجہول)]
١ - نیا نیا کام کرنے والا، انوکھی بات کرنے والا، وہ جو نت نئے مشاغل ایجاد کرتا رہتا ہے۔
 تقاضا کر رہا ہے اب یہ حسن تازہ کار ان کا کہ جس نے دل دیا تھا جان بھی ہم پر فدا کردے      ( ١٩٥٠ء، کلیات حسرت، ٤٣ )
٢ - نوسیکھیا، ناتجربہ کار، نو آموز۔
"سلطنت کے ہر شعبے سے متعلق بہت سے اہم قواعد ہیں جن کے وجوہ کو ایک تازہ کاریا نو سکھ آدمی نہیں جانتا ہے۔"      ( ١٨٩٠ء، معلم السیاست، ١٠١ )
  • نَو آمُوز