تبرا

( تَبَرّا )
{ تَبَر + را }
( عربی )

تفصیلات


برا  بَری  تَبَرّا

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٨٩ء میں "صبح امید، شبلی" میں مستعمل ملتا ہے۔۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - کسی گناہ سے برات چاہنا، بیزاری، نفرت، تنفر، انکار اور اس کا برملا اظہار نیز اس کا عقیدہ۔
"جب تک بندہ اپنے ہر حصہ نصیب سے تبریٰ و بیزاری نہ کرے اسے وقت تک مرد سے خدمت و عبادت یا اخلاص کی اہلیت ہی نہیں ہوتی۔"      ( ١٩٧٣ء، کشف المحجوب (ترجمہ) ٤٣٤ )
٢ - لعن طعن کرنے کا عمل۔
"دو ہی صورتیں ہیں یا تو عورت شوہر کی خاطر صبر کرے اور خاموشی سے تبرے کو سنتی رہے اور یا وہ خاورند سے کہے کہ مرے سامنے تبرا نہ کہنا چاہیے۔"      ( ١٩٢١ء، اولاد کی شادی، ٣٨ )