تبسم فزا

( تَبَسُّم فِزا )
{ تَبَس + سُم + فِزا }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'تبسم' کے ساتھ فارسی مصدر 'فزودن' سے مشتق صیغہ امر 'فزا' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٨٦٤ء میں "دیوان نسیم دہلوی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - مسکراہٹ بڑھانے والا، مسکراہٹ والا۔
 آنکھوں میں ہے لحاظ تبسم فزا ہیں لب شکر خدا کہ آج تو کچھ راہ پر ہیں آپ      ( ١٨٦٤ء، دیوان نسیم دہلوی، ١١٩ )