تحدب

( تَحَدُّب )
{ تَحَد + دُب }
( عربی )

تفصیلات


حدب  تَحَدُّب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٩٢٣ء میں "نگار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - کبڑا پن، کوزپشتی ابھار، قبہ دار گنبدی ابھار (اوپر یا نیچے کا)۔
"یہ ظاہر ہے کہ مثبت خماؤ کے معیار سے اوپر وار تحدب پیدا ہو گا اور منفی خماؤ کے معیار سے نیچے وار تحدب۔"      ( ١٩٤٧ء، مضبوطی اشیاء، ١٩٦:١ )
٢ - [ مجازا ]  دباؤ، جھکاؤ۔
"برخلاف دوپہر کے اس وقت آفتاب کی شعاعیں سیدھی پڑتی ہیں اور ہوا کا تحدب بھی کم ہوتا ہے۔"      ( ١٩٢٣ء، نگار، ٢٣٦:٣ )