دعویدار

( دَعْویدار )
{ دَی + وے + دار }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم 'دعویٰ' کی مغیرہ حالت 'دعوے' کے بعد فارسی مصدر 'داشتن' سے صیغہ امر 'دار' بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٠٣ء "نوسر ہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : دَعویداران [دَع + وے + دا + ران]
جمع غیر ندائی   : دَعویداروں [دَع + وے + دا + روں (و مجہول)]
١ - اپنے منہ سے کسی کمال یا اچھی بات کو اپنی طرف منسوب کرنے والا۔
"اور جو حقیقت پسندی کے دعویدار تھے وہ ہر آنے والی بلا کا استقبال کرنے کو تیار رہنے کی تلقین کرتے۔"      ( ١٩٧٤ء، ہمہ یاراں دوزخ، ٣٩ )
٢ - کسی بات کا زعم یا غرور رکھنے والا۔
"بڑے بڑے دعویدار پڑے ہوئے مثل بیزم خشک جل رہے ہیں۔"      ( ١٩٠٢ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ٧٩:٣ )
٣ - حق جتانے والا، استحقاق کا دعویٰ کرنے والا، مطالبہ یا طلب گاری کرنے والا۔
 اور بھی ہیں وفا کے دعویدار ایک میرا ہی امتحاں خالی      ( ١٩٨٤ء، چاند پر بادل، ١٠٨ )
٤ - نالش یا فریاد کرنے والا، مدعی۔
"مقتول کو مارا تھا اسی کے وارثوں نے اور وہی دعویدار بنے تھے۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ١٧:٢ )