فارسی زبان سے ماخوذ مرکب 'دل سوز' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٠٩ء سے "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔
"انہیں اپنی محبت اور دل سوزی کی قدرو قیمت کا بخوبی اندازہ تھا۔" رجوع کریں:
( ١٩٧٩ء، قصہ نئی شاعری کا، ١٦٣ )
٢ - درد انگیزی، جاں گدازی، غم ناکی۔
"کلکڑ ضلع (مراد آباد) مسٹر جان اسٹریچی نے اپنے ضلع کے قحط کا انتظام سرسید کے سپرد کر دیا تھا اور انہوں نے بھی بڑی دلسوزی اور تندہی سے اس کام کو کیا۔"
( ١٩٣٨ء، حالاتِ سرسید، ٢٥ )