دل ربا

( دِل رُبا )
{ دِل + رُبا }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دِل' کے بعد مصدر 'رُبودن' سے صیغہ امر 'رُبا' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٣٥ء سے "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - محبوب، معشوق، دلبر۔
 بدل کے رہ گئی دنیا نگاہ والوں کی حریمِ ناز تک اس دلربا کا آنا تھا      ( ١٩٤٠ء، بیخود موہانی، کلیات، ٦ )
٢ - سارنگی کی قسم کا مگر اس سے لمبا بنگالی ساز جس کو کمانچہ سے بجایا جاتا ہے، اس میں فولادی تار کی طربیں ہوتی ہیں، سارنگی کی طرح تانت کے تار نہیں ہوتے، اسے بعض مقامات پر طاؤس بھی کہتے ہیں، اسراج۔
"سعید الدین صاحب دلربا بجایا کرتے تھے، اسی لیے ان کا نام دلربا ہوگیا تھا۔"      ( ١٩٧١ء، ذکر یار چلے، ٣١٠ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - دل لبھانے والا، مطبوع خاطر، دلکش۔
 شباب و حسن کی تصویر دلربا ہو، میں مجھے یقین نہیں خود کو دیکھتا ہوں میں      ( ١٩٨٤ء، سمندر، ٦٠ )