دل کا میلا

( دِل کا مَیلا )
{ دِل + کا + مَیلا (ی لین) }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دل' کے بعد 'کا' بطور حرف اضافت لگا کر ہندی زبان سے ماخوذ اسم 'میلا' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٩٨٥ء سے "روشنی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جنسِ مخالف   : دِل کی مَیلی [دِل + کی + مَے (ی لین) + لی]
واحد غیر ندائی   : دِل کے مَیلے [دِل + کے + مَے (ی لین) + لے]
جمع   : دِل کے مَیلے [دِل + کے + مَے (ی لین) + لے]
جمع غیر ندائی   : دِل کے مَیلوں [دِل + کے + مَے + لوں (و مجہول)]
١ - بدنفس، بد باطن۔
"عبدالعزیز بن مروان نئے نئے گورنر بنے تھے، نوجوانی کے دِن کم تجربہ۔ ایک ملنے والے نے سوچا. مجھے اِدھر اُدھر کی اطلاعیں انہیں بہم پہنچانا چاہیے تاکہ وہ مجھے لوگوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ٣٤٥ )