فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دِل' کے ساتھ مصدر 'گرفتن' سے صیغہ امر 'گیر' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٣٩ء سے "طوطی نامہ، غواصی"میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : دِل گِیروں [دِل + کی + روں (و مجہول)]
١ - مغموم، اداس، غمگین، رنجیدہ۔
"اپنی بیٹی کو یوں دل گیر دیکھ کر (حضرت بابا فیض بخش صاحب نے) حزل و ملال کی وجہ دریافت کی۔"
( ١٩٧٧ء، من کے تار، ٢٦ )
٢ - دل لبھانے والا، دلکش۔
"نام نہاد احساس برتری کی صورتیں عام طور پر وہ ہوتی ہیں جن میں ایک شخص اپنے احساس فروتری پر غالب آنے کا کوئی انوکھا اور دل گیر طریقہ اختیار کرتا ہے۔"
( ١٩٤٠ء، مکالماتِ سائنس، ١٩٩ )
٣ - خوفناک، خوف پیدا کرنے والا۔ (پلیٹس؛ اسٹین گاس)