دوش بدوش

( دوش بَدوش )
{ دوش (و مجہول) + بَدوش (و مجہول) }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ 'دوش' کی تکرار کے درمیان 'ب' بطور حرف جار لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت نیز متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٧٣٩ء سے "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

متعلق فعل
١ - کاندھے سے کاندھا ملاتے ہوئے؛ شریک رہ کر۔
"تاریخی شعور، عمرانی شعور، شعری شعور سب دوش بدوش چل رہے ہیں"      ( ١٩٨٦ء، فیضان فیض، ٣٢ )
٢ - جنازہ کو کاندھے پر رکھ کر لے جانے کے لیے بھی بولتے ہیں۔ (نور اللغات)
٣ - برابر، ہمسر، مقابل، ساتھ ساتھ۔
"وہ وقت دور نہیں کہ یہی سبک مایہ اور نوخیز زبان السنۂ عالم کے دوش بدوش نظر آئے گی۔"    ( ١٩٨٥ء، روایت اور فن (ترجمہ)، ٣٩ )
٤ - متصل، ملا ہوا، پیوستہ۔
"پاکستان. مغرب میں افغانستان اور ایران کی سرحدوں کے دوش بدوش ہے۔"    ( ١٩٧٨ء، پاکستان کا معاشی اور تجارتی جغرافیہ، ١ )