سایہ دار

( سایَہ دار )
{ سا + یَہ + دار }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سایہ' کے بعد 'داشتن' مصدر سے مشتق صیغہ امر 'دار' بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٦٥٧ء سے "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : سایَہ داروں [سا + یَہ + دا + روں (و مجہول)]
١ - گھنا، چھتنار، درخت جس کے نیچے چھاؤں رہے۔
 اہل ایماں توڑ ڈالیں، ہے یہ ایما یار کا سایہ دار اس نے جو بنوایا مری تصویر کو      ( ١٨٨٦ء، صابر دہلوی، ریاض صابر، ٢٠٠ )
  • shady
  • umbrageous;  affording shelter or protection;  a protector