سبک دوش

( سُبُک دوش )
{ سُبُک + دوش (و مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت 'سبک' کے ساتھ فارسی اسم 'دوش' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٨٥٤ء سے "دیوان ذوق" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - جس کا کندھا بوجھ سے ہلکا ہو، مطمئن، آسودہ، سبک بار۔
 ڈبو دیں آشنا کو گر سبک دوش اپنی صحبت میں تو آہن ساتھ کیوں لکڑی کے درمیا میں شناور ہو      ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ١٦٠ )
٢ - کسی امر یا ذمہ داری سے فارغ ہو جانے والا، بری الذمہ، دماغ۔
"اب صرف تمہاری بہن کے بوجھ سے سبکدوش ہونے کا فرض باقی ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، نگار، کراچی، جولائی، ٥٠ )
٣ - نجات حاصل کرنے والا، چھٹکارا پانے والا۔
"لکھنو رفتہ رفتہ اپنی سب روایتی سواریوں سے سبکدوش ہو چکا ہے۔"    ( ١٩٨٤ء، زمیں اور فلک اور، ١١٣ )
٤ - لاتعلق، بے غم، آزاد، بے پروا۔
 کیا شے تھی ظفر صحبت یار سبک اندام ہر شے سے زمانے میں سبک دوش رہے ہم    ( ١٩٦٨ء، غزال و غزل، ٣٧ )
  • lightly laden
  • unencumbered;  relieved
  • . free from care or anxiety
  • light- hearted