سبک دوشی

( سُبُک دوشی )
{ سُبُک + دو (و مجہول) + شی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ مرکب 'سبک دوش' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٨٧٠ء "چمنستان جوش" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - گوشہ نشینی، فراغت، فرصت، بری الذمہ ہونے کی حالت۔
"خیال تھا وقفہ سبک دوشی میں آپ سے لطف صحبت رہے گا۔"    ( ١٩١٩ء، مکاتیب مہدی، ٧١ )
٢ - نجات، خلاصی۔
 سبک دوشی کہاں حاصل ہوئی ہے مر کے بھی مجھ کو قیامت تک ابھی تو بوجھ اٹھانا ہے گناہوں کا    ( ١٩٤٠ء، احسن مارہروی، احسن الکلام، ٧٨ )
٣ - بے تعلقی، تجرد، آزادگی۔
"یہ جزا فقر اور سبکدوشی کی ہے جو فقیروں کو حاصل ہے۔"      ( ١٨٧٣ء، مطلع العجائب (ترجمہ)، ٨٧ )
٤ - بلاتکلف، آسانی، سہولت۔
"انسان ضحیف البیان بھی کس بلا کا پتلا ہے جس نےبار امانت کس سبکدوشی سے اٹھا لیا۔"      ( ١٨٩٠ء، فسانۂ دلفریب، ٣ )
٥ - ملازمت سے علیحدگی، فرائض منصبی سے الگ ہونا۔
"ملازمت سے سبکدوشی حاصل کر کے اسلام آباد سے کراچی آگیا۔"      ( ١٩٧٨ء، صد رنگ، ٥ )